واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت قطبُ الاقطاب مجدد دوراں

سید نا و مولانا شاہ فضلِ رحمن

رحمتہ اللہ علیہ

 آپ کی ولادت باسعادت حضرت رحمتہ اللہ میاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے مطابق ۱۲۰۸ہجری  کوسندیلہ میں ہوئی۔  نواب سید نورالحسن مجموعہ الرسائل میں لکھتے ہیں کہ آپ کےوالد ماجد حضرت شاہ  اہل اللہ حضرت شاہ عبدالرحمن لکھنوی  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے مرید تھے اور آپ کا نام حضرت شاہ عبدالرحمن   رحمتہ  اللہ  علیہ   نے فضل رحمن رکھا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ کے نام مبارک میں الف اور لام نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ اس سے آپ کا سن ولادت باسعادت نکلتا ہے۔ یعنی تاریخی نام ہے۔ حروف ابجد کے مطابق لفظ فضل کے کل اعداد ۹۱۰ ہوتے ہیں یعنی  ف کے عدد ۸۰ ، ض کے عدد ۸۰۰ اور  ل کے عدد ۳۰ ہوتے ہیں۔ اسی طرح لفظ رحمن کے کل اعداد ۲۹۸ ہوتے ہیں یعنی ر کے ۲۰۰ ، ح کے ۸، م کے ۴۰ اور ن کے ۵۰ عدد ہوتے ہیں۔ اب اگر ۲۹۸ میں ۹۱۰ کو جمع کریں تو کل اعداد ۱۲۰۸ بنتے ہیں جو کہ حضرت فضل رحمن گنج مرادآبادی کا سن ولادت ہے۔

مولوی تجمل حسین صاحب فضل رحمانی میں لکھتے ہیں کہ آپ ملاواں میں سڑک پر لڑکوں کے ساتھ کچھ کھیل میں مشغول تھے  کہ گاڑی آئی اوراس کاایک پہیہ آپ کےجسم اور سرکے اوپر سے گزرگیا جس سے آپ کے کان کا کافی حصہ کٹ گیا مگر جان بچ گئی۔

بچپن میں ایک مرتبہ آپ اپنے والد کے ساتھ ملاواں سے چلے آپ کے والد کے ہاتھ میں ایک پنجرہ تھا جس میں طوطی تھا۔ راستے میں آس پاس کاکن کے درخت خاصی تعداد میں موجود تھے۔ جیسے ہی طوطے نے کاکن کے خوشے دیکھے تو ٹیں ٹیں کرنے لگا۔ آپ کے والد نےکاکن کےدرخت کاایک خوشہ توڑکرجانور کو پنجرہ میں دے دیا، مولانا فضل رحمن   رحمتہ  اللہ  علیہ  نے منع کیا۔ آپ کےوالدنےاس کو خفیف سمجھ کر اس کو نہیں مانا اور چلے گئے۔ جب آپ کے والد بیس پچیس قدم چلےگئےتودیکھاکہ مولانا فضل رحمن  رحمتہ  اللہ  علیہ   میرےپیچھےنہیں ہیں۔ بلکہ وہیں کھیت پرکھڑےہیں۔ پکاراکہ آؤ کیوں کھڑے ہو۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے فرمایاکہ جب مالک کھیت کا آئےگاتو اس سے معاف کراکےآؤں گا کہ خوشہ ہمارے پنجرہ میں ہے۔ آپ کے والد نے کم سنی کے سبب سے نہیں چھوڑااورکہا کہ لو ہم نہیں جاتےہیں،پنجرہ کھول کر خوشہ کو پھینک دیا۔ تب آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   وہاں سے تشریف لے گئے۔

نواب سید نورالحسن اسرار محبت میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک پیرزادہ آپ کی خدمت میں حاضرہوااور آپ کو دیکھ کر بےہوش ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد جب ہوش میں آیا تو حضرت نے پوچھا کیا بات تھی کہنے لگا کہ میں نے آپ کے پاس حضرت محمدﷺ کو دیکھا ہے۔اور آنحضرتﷺ کا جمال دیکھ کر بے ہوش ہوگیا تھا۔ حضرت نے کہا کہ بس ایک جھلک میں یہ حال ہوگیاہے۔

حضرت مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرادآباد ی فرماتے ہیں کہ مجھےلڑکپن میں آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زیارت ہواکرتی تھی۔

۲۲ ربیع الاول ۱۳۲۳ہجری کو آپ دارفانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ کا مزارشریف گنج مرادآباد میں ہے جہاں دور دور سے لوگ فیض حاصل کرنےکےلئےحاضرہوتےہیں۔

حضرت مولاناشاہ فضل رحمن   رحمتہ  اللہ  علیہ   سے بے شمار علماومشائخ نے حدیث پاک کا درس لیااورروحانی تربیت بھی حاصل کی۔آپ کی بےشمار کرامات ہیں جن کے لئے یہ صفحات ناکافی ہیں۔